سلام کو عام کریں
اسلام امن و سلامتی کا ضامن ہے، ’اسلام‘ لفظ سے ہی سلامتی کا اظہار ہوتا ہے، نجی زندگی ہو، یا معاشرتی زندگی ہر جگہ سلامتی ہی اس کی اولین ترجیح ہے، اسلام کے ماننے والے جب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تب بھی وہ ایک دوسرے کا استقبال سلامتی کی دعا سے ہی کرتے ہیں۔ اسلام سے قبل ایک دسرے سے ملاقات کے وقت دوسرے کلمات رائج تھے لیکن آں حضو رؐ نے اپنے ماننے والوں کو سلام کا بہترین طریقہ سکھایا۔ آئیے حضرت ابوہریرہؓ کی اس روایت کو سمجھیں جس میں سلام کی اہمیت پرنبیؐ نے اپنے خیالات کا کچھ یوں اظہار کیا ہے:لا تدخلون الجنۃ حتی تومنوا ولا تو منوا حتی تحابوا۔۔ ألا ادلکم علی شئی اذا فعلتموہ تحاببتم ؟ افشوا السلام بینکم۔ (راوہ مسلم)
’’ تم جنت میں دا خل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ ایمان لے آ و، اور تم مومن کامل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت کرنے لگو، کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتاؤ ں جسے تم کرنے لگو تو آپس میں محبت پیدا ہوجائے، فرمایا: سلام کو رواج دو‘‘ ۔
اس روایت کے ذریعہ سلام کی اہمیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آں حضورؐ نے جہاں ایمان کے بغیر جنت میں داخلہ ناممکن بتایا، وہیں ایمان پیدا کرنے کے لئے آپسی محبت کو لازمی شئے قرار دیا ۔ پھر محبت کو بڑھاوا دینے کا اہم گر سکھاتے ہوئے سلام کو عام کرنے اور اس کا رواج عام کرنے کا حکم دیا ۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے سلام کرنے سے کس قدر محبت میں اضافہ ہو سکتا ہے ، سخت جانی دشمن بھی آپ کی زبان سے سلامتی کے الفاظ سن کر پگھل سکتا ہے ، جو آپ کے قتل کے ارادے سے سامنے آئے اور آپ اس کو سلام کر کے یہ احساس دلائیں کہ ہم اپنی طرف سے آپ کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کا دل پسیج جائے اور وہ آپ کا ہو کر رہ جائے ، دوستی بڑھانے اور دلوں کو جوڑنے کا اس سے زیادہ کوئی اور کارآمد نسخہ ہی نہیں ہے ، یقین نہ آئے تو کوئی اس نسخہ کیمیا کو آزما کے دیکھ لے۔
قرآن مجید میں بھی جنتیوں کی زبان پر سلام کے ترانے عام ہونے کی بات کہی گئی ہے ۔ رب العالمین کی طرف سے سلامتی کی دعا اور جنتیوں کے آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا ذکر جا بجا ملتا ہے ۔ ایک اور روایت ہے جس میں آں حضورؐ نے فرمایا:
افشوا السلام ، وصلوا الارحام ،واطعموا الطعام ،وصلوا باللیل والناس نیام ،تدخلوا الجنۃ بسلام ۔
اس روایت میں سلام کو عام کرنے،صلہ رحمی کرنے ،مسکین کو کھانا کھلانے ،راتوں میں نمازیں ادا کرنے پر جنت میں بآسانی داخلہ کی ضمانت دی گئی ہے ۔
لہذا ہم پر ضرری ہے کہ ہم سلا م کوکثرت سے عام کرنے کی عادت ڈالیں ، اس کی کوئی پرواہ نہ کریں کہ سامنے والا سلام کا جواب دے گا یا نہیں۔ ہوتایہ ہے کہ ہم جس کو جانتے ہیں اسی کے ساتھ سلام کلام کرنے کے عادی ہوتے ہیں حالانکہ جن کو نہیں پہچانتے ان کو بھی سلام کر نے کو کہا گیا ہے ۔ آئیے عہد کریں کہ لوگوں کے دلوں میں پائی جانے والی نفرت کو میٹھے بول کے ذریعہ ختم کریں گے، اور اس کے لئے سلام کو عام کر کے اہل جہاں کو یہ پیغام دیں کہ ہم سلامتی کے داعی اور امن کے پیامی ہیں ۔
(برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکل )
No comments:
Post a Comment